شکوہ اپنے ہم پیشہ دوستوں سے ہے، تب سے جب سے پڑھانا شروع کیا تھا، کہ منظم تحقیق نہیں ہے ہیپاٹایٹس کی معالجات کے شعبہ میں۔
ہمارے ایلوپیھیک اور سرجن لوگ صرف یورپ و مغرب کی تحقیقات پر جی رہے ہیں، ہمارے حکیم، ہومیوپیتھ اور وید لوگ صرف کتاب کی حد تک ہیں یا تک بندی پر اتر آئے ہیں، ڈاکومنٹیشن کی طرف نہیں آتے، تحقیق اور نظم کی کمی، ایک انگریز کے نسخہ جات کو بڑھیا قرار دیے جاتا ہے اور حتمی علاج کے طور پر تسلیم کروانے کو مصر، دوسرے کاسنی، دارچینی، اجوائین خراسانی، ملٹھی کا جگر پر اثرات کو ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا ذور لگا رہے ہیں مگر صرف اور صرف ذاتی نسخہ جات اور تجربہ کی بنیاد پر،
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو بہر تین تہذیبوں کا گوارہ ہے، مغربی تحقیق، اسلامی تناظر اور ہندی پس منظر کے ساتھ تینوں شعبوں میں کمالات کو عوام الناس کی فلاح کےلئے استعمال کیا جاسکتا ہے یورپی میڈیسن میں ہمارے لوگ ماہر ہیں، ہومیوپیتھی کا علم ان کے پاس ہے، حکمت و طب کے عالم ادھر ہیں، طب اسلامی و ایورویدک میں ہونے والی ساری تحقیق انکے پاس ہے، دنیا کے کتنے ممالک ہیں جو اس شعبہ میں پاکستان کا مقابلہ کرسکتے ہیں، انڈیا کے پاس اسلامی طب کی علم کم ہے، اہل غرب کے پاس انڈین میڈیسن نہیں، عربوں کا بھی یہی حال ہے کہ انکا گزارہ مغربی میڈیسن اور عربی طب پر ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ سارے لو سر جوڑ کر بیٹھ جاتے اور ہر طریقہ علاج کے ذریعے عوام کو فائدہ پہنچتا، مگر پھر وہی ڈھاک کے تین پات، بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے تو کون؟؟؟
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ, جولائی 29, 2011
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
ڈاکٹر صاحب مرض کی درست تشخیص تو کر دی ہے آپ نے، اب کوئی پہلا قدم اٹھا ہی لے تو پوری دنیا کا فائدہ ہو گا۔۔
جواب دیںحذف کریںقرار دے چکا ہے کہ ترقی پذیر ممالک علاج و معالجہ کے لیے مقامی طریقہ علاج کو اختیار کریں جو ان کے مدافعتی نطام کے مطابق ہے who
جواب دیںحذف کریںجیسا کہ ڈبلیو ایچ او کے بارے میں غائیب صاحب نے فرمایا ہے، میں بھی یہی کہنے کے چکرمیں ہوں مگر جانے کیوں جب تک کسی بات میں مغرب شامل نہ ہمارے لوگ یقین کرنے سے پرہیز کرتے ہیں، وللہ اعلم۔
جواب دیںحذف کریں