فرقہ واریت ایک المیہ ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ ہمارے ملک کا یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسے تن آسانی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ جہاں پر بھی کوئی دہشت گرد ی کا واقعہ ہوا حاکم وقت نے اسے القائدہ، طالبان، فلاں لشکر، فلاں جماعت، اور فلاں فرقہ پر ڈال کے ہاتھ جھاڑ لئے، کوئی ان سے پوچھے میاں سب مان لیا مگرکوئی ثبوت؟ کسی ذمہ دار کو سزا؟
کچھ بھی نہیں، گزشتہ سالوں سے آپ بھی دیکھ رہے ہیں میں بھی۔ یہاں مسجد میں جمعہ کاشنکوف کے سائے تلے، جنازہ پر جامہ تلاشی، امام بارگاہ میں اور چرچ میں بندوق بردار بندے، مگر کسی سیاسی جلسہ میں دھماکہ نہیں ، کسی شادی بیاہ میں دھماکہ نہیں البتہ، مزاروں پر ، مسجدوں میں، مدرسوں میں ضرور ہوتے ہیں۔
لاہور داتا صاحب کے مزار پر ہونے والے دھماکے بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی دکھتے ہیں، کہ پاکستانی عوام چونکہ اکثریت سے مذہبی ہے اس لئے مذہبی مقامات پر افراتفری پیدا کرکے ان لوگوں میں انتشار پھیلایا جائے۔
اس سے کہیں یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ ایسی قوتیں ہیں جو اس ملک میں مذہب اور مذہبیوں کو بدنام کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور کہیں انکا مقصد صرف اہلیان مذہب کو منتشرکرکے ملک میں افراتفری پھیلانا تو نہیں تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد پورے کرسکیں، اس میں صرف ملک دشمن قوتوں کو ہی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اور بھارت، امریکہ ، اسرائیل سے زیادہ کوئی اور بڑا دشمن نہیں،
جو دوست نما بھی ہیں۔ دوست ہوئے جسکے تم دشمن اسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقول چچا سعید کے انکا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ جو آپ کے پاس کچھ پٹاخے پڑے ہوئے ہیں وہ لےجائیں اور بس، پھر ہم تو دوست ٹھہرے بس تم خالی ہاتھ اور ہم ہمیشہ کی طرح ہتھیار بند
آپ کا اندازہ درست لگتا ہے ۔ جہاں وہ لوگ صاحبِ اقتدار ہوں جنہيں جائز و ناجائز طريقہ سے مال اکٹھا کرنے کے سوا اور کوئی کام نہ ہو چاہے اس کيلئے بيوی ہلاک ہو جائے وہان آپ بہتری کی توقع کيسے کر سکتے ہيں
جواب دیںحذف کریںايک درخواست ہے
تبصرہ ميں نام اور يو آر ايل والی آپشن ڈال ديجئے
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جواب دیںحذف کریںراجہ صاحب،بات کچھ ایسی ہی ہےکہ ہم میں مذہبی روادی اوراحساس ذمہ داری ناپیدہورہےہیں۔اسی لیےتوہم بس باتیں کرتےہیں عمل کی نوبت نہیں آتی
والسلام
جاویداقبال