ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل, اگست 14, 2012

جریدہ اور بلاگ

ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ بلاگ اور ویب سائیٹ میں کیا فرق ہے، بلاگ کو لوگ جریدہ کیوں بنانے پر تلے ہوئے ہیں ادھر سے کاپی ادھر پیسٹ، ادھر سے پکڑا ادھر سے نقل کیا اور لوجی بلاگ ہوگیا، ایک زمانے میں کتاب بھی ایسے ہی لکھا کرتے تھے بلکہ اب بھی لکھ رہے ہیں، پکڑا پکڑائی کے مال سے کام نکال کر۔ کتاب ہوگئی جی، جس کے پیچھے کوئی نہ کوئ ذاتی تجربہ ہوتا ہے اور نہ کوئی مشاہدہ، بس جی ان بابا جی نے 665 کتابیں لکھیں، کوئی پوچھے لکھین یا لکھوائیں، اگر ایسا ہی ہے توبندہ ایک جریدہ شائع کیوں نہیں کردے ، ہیں جی

کہ اس میں بھی لکھنے والے اور ہوتے ہیں اور شائع کرنے والے اور، بندہ دوسروں کا مال چوری بھی کرسکتا ہے اور خود لکھ کر کوئی پینتی کے قریب لوگوں کے نام سے بھی شائع کرسکتا ہے۔ قارین کے خطوط بھی خود لکھ کر شائع کئے اور انکے جوابات بھی دیئے جاتے ہیں۔ 

18 تبصرے:

  1. راجہ جی یقین مانئے میں بھی تپا ہوا تھا۔
    لکھنے کی سوچ ہی رہا تھا۔
    بلاگ ہے یااخبار جودل میں ائے پیسٹ کردو،
    اور پانچ سکینڈ بعد سیارہ پہ بکواس پڑھائی جا رہی ہوتی۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

    شکر ہے جی کوئی تو بولا۔ ویسے میں نے ابھی کچھ دن پہلے ہی اس موضوع پر ایک تحریر لکھی تھی۔ ملاحظہ فرمائیں
    آخر بلاگ کس چڑیا کا نام ہے
    http://www.mbilalm.com/blog/what-is-blog-detailed-discussion/

    جواب دیںحذف کریں
  3. راجہ صیب کیوں غصہ کرتے ہو
    لکھنے والے کو لکھنے دیں اور پیسٹنیے والوں کو پیستنے دیں
    ایک فائدہ تو ہے چاہے کاپی پیسٹ صیح اردو میں کوئی میٹریل تو اپ لوڈ ہو رہا ہے جریدے آلے بلاگ کے بہانے سہی
    اور ویسے بھی یہ پاکستان ہے سب چلتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. جاپانی صاحب: یہی تو ظلم ہے کہ اگر گھر کا کچرا ہی ادھر ڈالنا ہے تو پھر رہن دے بندہ، جب ادھر ادھر کی خبریں ہی شائع کرنی ہیں تو سیدھی سی خبروں کی سائیٹ بناؤ، لیڈر بناؤ، بندوں کو بےوقوف بناؤ،

    جواب دیںحذف کریں
  5. بلال صاحب: آپ تو بہت ٹیکنیکل ترتیب سے چلے مگر میں نے بخدا تپ کر لکھا ہے، مطلب کسی کو سمجھانا کچھ نہیں ہے بلکہ اپنے دل کا ابال نکالنا ہے، ویسے بھی ہمارے ملک میں پہلے ہی سمجھانے والے زیادہ ہیں اور سمجھنے والے غائیب

    جواب دیںحذف کریں
  6. علی صاحب: یہ غصہ نہیں ہے بلکہ خوامخواہ کی ٹینشن ہے، کاپی پیسٹ یہ بھی تو ہوسکتی ہے کہ انگریزی کی سائیٹ سے ترجمہ کرلیا جائے جس طرح آپ سوکر نامہ کررہے ہیں، چلیں مان لیا، مگر جو ادھر اردو کی سائیٹس سے خبریں اور مواد ری سائیکل کررہے ہیں، میں صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ بھلے یہی لکھ دو کہ آج میرے دماغ میں کچھ نہیں آرہا ، یہ بہتر ہے، بی بی سی کی خبر کو پیسٹ کرنے سے

    جواب دیںحذف کریں
  7. اپنے دماغ کی سوچوں اور اپنے دل کی آواز کو صفحات پر بکھیرنا خالہ جی کا واڑہ نہیں ہے ۔
    یہ کھوتی دے پتر ہیں ۔۔۔ گھوڑے کے بچے بننے میں دیر لگے گی

    جواب دیںحذف کریں
  8. جناب اتنا مشکل نہیں ہے مگر بندہ جب ہو ہی چیٹنگ کے پروغرام میں تو پھر مشکل ہے، اگر غلطی ہوجائے وہ تو قابل درگزر ہے مگر چول پنا کو کیا کہیں

    جواب دیںحذف کریں
  9. مسٹر ٹوٹ بٹوٹ کھوتی کا پُتر کھوتی کا ہی ہوتا ہے کبھی گھوڑا نہیں بن سکتا

    جواب دیںحذف کریں
  10. اصل میں مِن حیث القوم آرام طلبی ہم میں رچ بس چُکی ہے کاپی رائٹ نامی کِسی اصطلاح کو تو ہم ویسے ہی نہیں مانتے

    جواب دیںحذف کریں
  11. جو بات مجھے سمجھ آئی ہے اس دھندے کی یہ ہے کہ اپنا نام ظاہر ہوتا رہے کسی نہ کسی طرح ۔ یہی فیشن ہے آجکل ۔ آپ ٹی وی پر دیکھ لیں ۔ اخبار میں پڑھ لیں ۔ یہی کچھ ہو رہا ہے

    جواب دیںحذف کریں

  12. توپیں چل پڑی ہیں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ میں بھی ان توپوں کی زد میں ہوں۔ بلاگ کو جب ہم ذاتی ڈائری کہتے ہیں تو کیا ذاتی ڈائری میں ہم دوسری جگہوں سے اقتباسات نقل نہیں کرتے؟ کہیں سے کوئی غزل اچھی لگی ڈائری میں لکھ ڈالی،اخبار سے کسی مضمون کا کوئی ٹکڑا اچھا لگا وہ بھی کاٹ کر اپنی ڈائری میں محفوظ کر لیا۔بالکل بلاگ میں لکھی گئی تحاریر میں بلاگر کی ذاتی رائے اور سوچ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ مگر کیا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کہیں کسی اخبار میں کوئی کالم یا تحریر پڑھتے ہیں جو بالکل آپ ہی کے خیالات کی ترجمانی کرتی ہے۔ آپ اپنے خیالات کو الفاظ کے اتنے نفیس لباس نہیں پہنا سکتے تو اگر اس تحریر کو نقل کر دیا جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  13. اسد حبیب صاحب، اگر آپ ایسا سمجھ رہے ہیں تو یہ آپ کی اپنی سمجھہے، واقعہ یہ ہے کہ مجھے آج تک آپ کے بلاگ پر رسائی نہیں ہوئی، البتہ اور بہت سےکن ٹٹے پڑھے ہیں ادھر، ایک سے بڑھ کر ایک، نقل کرنے میں مضائقہ نہیں جب اسکا ریسورس بھی بتا دیا جائے یا کم ازکم کہ نقل کردہ مواد ہے، ادھر حال یہ ہے کہ کاپی پیسٹ کو اصل کے طور پر شائع کیا جاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  14. افتخار انکل، یہی تو بیماری ہے جسکی تشخیص کرنے کے چکر میں ہیں ہم لوگ،

    جواب دیںحذف کریں
  15. دھرا ح صاحب،آرام طلبی کی وجہ سے ہی تو ہم لوگ نقالی پر اتر آئے ہیں، ورنہ اپنے طور پر لکھنا کچھ اتنا بھی تو مشکل نہیں ہے

    جواب دیںحذف کریں
  16. I apologize to Mr. Japani for copying one of his posts. But I dont do such things now but whenever I did the main reason was that I can't keep track of original post to read it again so I paste in on my blog. But When I came across X-marks then I stopped this practice.

    جواب دیںحذف کریں
  17. جمشید اقبال صاحب، کسی حوالہ کےلئے کاپی کرنا بمعہ حوالہ اور لنک کے تو کبھی بھی قابل اعتراض نہیں رہا، مگر ادھر تو یہ حال ہے کہ کاپی کرکے پوری کی پوری پوسٹ ہی ڈال دی جاتی ہے، کہ لوجی پڑھو، ایک ہی تحریر کئی جگہ پڑھی وہ بھی بغیر حوالہ کے، اچھی بات کو بعض اوقات ہم بھی نقل کرتے ہیں مگر جہاں سے ائی اسکا ریسورس لازمی طور پر ظاہر کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں