ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر, مئی 11, 2015

اسلام میں سوالات کرنے کی روایات

یاد کیجیے اس وقت کو جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کے موقع پر دباؤ کے ساته صلح کیے جانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال فرما رہے تهے اور آپ نہایت اطمینان کے ساتهہ ان کے ہر سوال کا جواب دے رہے تهے.
عمر رض: کیا آپ واقعی اللہ کے نبی نہیں ہیں ؟
رسول الله صلى الله عليه و سلم: کیوں نہیں.
کیا ہم لوگ حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟
کیوں نہیں.
تو پهر ہم اپنے دین کے معاملے میں اتنی رسوائ کیں اٹها رہے ہیں ؟
میں اللہ کا رسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کر سکتا اور وہی میری مدد فرمائے گا.
آپ ہی تو ہم سے بیان کیا کرتے تهے کہ ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے ؟
بالکل، کیا میں نے یہ بهی بتایا تها کہ یہ سب اسی سال ہوگا ؟
نہیں.
تو بس جو کہہ دیا وہ ہو کر رہے گا. تم بیت اللہ پہنچ جاؤگے اور طواف بهی کروگے.
پهر بعینہ یہی سوال عمر رض ابو بکر رض سے بهی کرتے ہیں.
لیکن ابو بکر رض کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے ذرا بهی مختلف نہیں ہوتا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام کے مشورے سے آپ کو جانشین رسول مقرر کیا گیا.آپ کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے.بار خلافت سنبھالنے کے بعد آپ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا.


میں آپ لوگوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں. اس ذات پاک کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لئے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لئے حرص پیدا ہوئی. میں نے تو اس کو بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتدار برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا. میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے. جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے اللہ میری مدد فرمائے. اب اگر میں صحیح راہ پر چلوں تو آپ سب میری مدد کیجئے اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجئے. سچائي امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کے میں اس کا حق اس کو دلواؤں . اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں. ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم نے فی سبیل اللہ جہاد کو فراموش کردیا ہو اور پھر اللہ نے اس پر ذلت مسلط نہ کی ہو،اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں فحاشی کا غلبہ ہوا ہو اور اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے.میری اس وقت تک اطاعت کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں (طبری. ابن ہشام)


امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ ایک بار منبر پر خطبے کےلئے کھڑے ہوئے اور کہا ”لوگو سنو اور اطاعت کرو“۔
 ایک عام شخص مجمع میں کھڑا ہوگیا اور کہا امیر المومنین !ہم نہ تمہاری بات سنیں گے اور نہ ہی اطاعت کریں گے۔ اس لئے کہ تمہارے جسم پر جو چوغہ لگا ہے وہ اس کپڑے سے زائد کا معلوم ہوتا ہے جو کپڑا مال غنیمت میں سے بحصہ مساوی آپ کو ملا تھا لہٰذا یہ خیانت ہے اور خائن خلیفہ کی اطاعت قوم کےلئے جائز نہیں ہے۔
 امیر المومنین حضرت عمرؓ نے اپنا خطبہ دینا روک دیا
اور اپنے بیٹے، عبد اللہ بن عمرؓ کی طرف اشارہ کیا، عبد اللہ بن عمرؓ نے کھڑے ہو کر کہا لوگو! یہ سچ ہے کہ مال غنیمت سے سب کو ایک ایک چادر ہی ملی تھی اور امیر المومنین کو بھی ایک ہی چادر ملی تھی۔ ان کا قد اونچا ہے اور لمبے قد کے اعتبار سے ان کا کُرتا ایک ہی چادر میں بننا ممکن نہیں تھا اس لئے میں نے اپنے حصہ کی چادر بھی امیر المومنین کو دے دی تھی اور دو چادروں سے میرے والد یعنی امیر المومین کا کرتا بنا۔ اب فرمائیے۔
عبد اللہ بن عمرؓ کی گواہی کے بعد معترض نے کہا میرا شک دور ہوگیا ہے۔ امیر المومنین اب فرمائیے ہم آپ کے حکم کی تعمیل بھی کریں گے اور آپ کی اطاعت بھی کریں گے۔
یہ حضرت عمرؓ کی عدالت کا انصاف تھا کہ ایک عام سے عام شخص بھرے مجمع میں سے کھڑے ہو کر خلیفہ وقت کو اس وقت تک خطبہ دینے سے روک سکتا تھا جب تک اس کا خلیفہ وقت پر لگایا گیا الزام غلط ثابت نہیں ہو جاتا تھا۔

اور ایک ہمارے علماء  ہیں جنکے  اوپر سوال  کرنے والے یا انکی مخالفت کرنے والے پر کفر کے فتوے لگ جاتے ہین۔

شاید یہی وجہ ہے ہماری امت کے زوال کی، عام آدمی تو عام آدمی  ، عالم دین کہلوانے والے بھی دین سے دور ہیں، دین کو صرف اپنے فائدہ کےلئے استعمال کرتے ہیں اور اگر کوئی ان پر اعتراض کرے یا اختلاف کرے تواسے کافر قرار دے دیا جاتا۔  حد تو یہ ہے کہ اس وقت ہرفرقے کو کوئی نہ کوئی کافر یا مشرک قرار دے چکا ہے۔
جبکہ واضع حکم ہے کہ " اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت کرو۔ "
مگر ہمارے علماء نے تفرقہ کو حلال کرکے بہت سے فرقے بنالئے ہیں۔
انا للہ و انا لیہ راجعون

8 تبصرے:

  1. سو فیصد متفق
    بہترین شیئرنگ

    جواب دیںحذف کریں
  2. راجہ جی ۔ سچ لکھا آپ نے اول تا آخر ۔
    آج ہماری قوم کے پڑھے لکھوں کی یہ حالت ہے کہ جھوٹ بار بار بیان کرتے ہیں اور سچ بولنے والے کی بے عزتی پر اُتر آتے ہیں ۔ اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. جناب یہ ان لوگوں کی مثالین ہین جو عین دین پر تھے، جو اسلام کی علامت ہین، اور تین مثالین اسلئے لیں کہ ثابت ہوسکے کہ اسلام کا درس یہی ہے کہ حکمران سے بڑے سے سوال کرنا عین جائز ہے اور کوئی بھی اٹھ کر سوال ہی نہین کرسکتا بلکہ انکو روک بھی سکتا ہے کہ یہ کام کتاب و سنت کے خلاف ہورہا ہے اور اگلے اپنی صفائی پیش کرتے ہین، آج ایسا ہوتو کافر قرار دیتے ہین،

    جواب دیںحذف کریں
  4. اسلام علیکم
    مولا حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (ر۔ض) اُس وقت حکمران تھے اور اُس وقت کی عوام نے ان سے جو سوالات کیے تھے وہ حکمران کی حیثیت سے کیے تھے عالم کی حیثیت س نہیں کیے تھے۔جس سے یہی سبق ملتا ھے کہ ایک حکمران اپنے اللہ کے سامنے بھی جوابدہ ھے اور اپنی عوام کے سامنے بھی۔
    جبکے اُس وقت بھی حکمران اور خلفأ کسی شرعی مسئلہ کے لیے اُس وقت کے فاضل علما سے رابطہ کرتے تھے جو قرآن اور حدیث کا بہت علم رکھتے تھے۔( جن میں حضرت ابو ھریرہ، زید بن ثابت۔ عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس اور بہت سارے فضلأ شامل ہیں۔یہ سب سیرت و حدیث میں لکھا ھے۔) علما سے مشورہ کے بعد پھر خلیفہ جو بھی فیسلہ کرتا تھا وہ سب کے لازم قبول کرنا پڑتا تھا۔
    ایسی بہت سی مثالیں ملتی جب اُس وقت خلفأ نے ایسے فیصلے کیے کہ لوگ اِن فیصلوں کے حق میں نہیں تھے۔مگر اللہ کا خلیفہ سمجھ کر اِن کے فیصلوں کو قبول کیا۔اور اُسی میں اللہ نے بہتری ڈالی۔ مثالیں بہت ہیں۔ ضرورت پڑے تو سیرت اور تاریخ کی مستند کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جیسے تاریخ ابنِ کثیر تفسیر ابنِ کث

    جواب دیںحذف کریں
  5. اسلام علیکم
    مولا حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (ر۔ض) اُس وقت حکمران تھے اور اُس وقت کی عوام نے ان سے جو سوالات کیے تھے وہ حکمران کی حیثیت سے کیے تھے عالم کی حیثیت س نہیں کیے تھے۔جس سے یہی سبق ملتا ھے کہ ایک حکمران اپنے اللہ کے سامنے بھی جوابدہ ھے اور اپنی عوام کے سامنے بھی۔
    جبکے اُس وقت بھی حکمران اور خلفأ کسی شرعی مسئلہ کے لیے اُس وقت کے فاضل علما سے رابطہ کرتے تھے جو قرآن اور حدیث کا بہت علم رکھتے تھے۔( جن میں حضرت ابو ھریرہ، زید بن ثابت۔ عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس اور بہت سارے فضلأ شامل ہیں۔یہ سب سیرت و حدیث میں لکھا ھے۔) علما سے مشورہ کے بعد پھر خلیفہ جو بھی فیسلہ کرتا تھا وہ سب کے لازم قبول کرنا پڑتا تھا۔
    ایسی بہت سی مثالیں ملتی جب اُس وقت خلفأ نے ایسے فیصلے کیے کہ لوگ اِن فیصلوں کے حق میں نہیں تھے۔مگر اللہ کا خلیفہ سمجھ کر اِن کے فیصلوں کو قبول کیا۔اور اُسی میں اللہ نے بہتری ڈالی۔ مثالیں بہت ہیں۔ ضرورت پڑے تو سیرت اور تاریخ کی مستند کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جیسے تاریخ ابنِ کثیر تفسیر ابنِ کث

    جواب دیںحذف کریں
  6. جناب اس بلاگ کہ بنانے والے! میں نے ایک تبصرہ بھیجا تھا کل۔ جو حق بات پر مبنی تھا مگر تم نے اپنی یکطرفہ سوچ کی وجہ سے وہ شائع نای کیا۔ بہتر ھے اس بلاگ کو بند کر دو۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. لیکن یہ یاد رکھیں کہ حق کا دفاع کرنے والے ھر جگہ اللہ پیدا کر دیتا ھے

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں