ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل, جنوری 14, 2014

پردیسیوں کے دکھڑے

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ایک دوست، جاننے والی آلینا کا فون آیا، تو میں اٹینڈ نہیں کرسکا، پھر ایک اور کال ایک اور کال، آلینا میری کافی عرصہ سے جاننے والی ہے، ہم لوگ اکٹھے کام کرتے رہے ہین ۔ مین نے جاب چھوڑ دی، اور بعد میں اسے کمپنی نے بندے چھانٹے کرنے کے چکر مین نکال دیا، بہت برس پہلے، اس کے بعد بھی کبھی کبھی کی یاد اللہ ہو ہی جاتی، کہ عیدمبارک، نیا سال مبارک، بیچ مین رابطہ زیادہ ہوجاتا اور ختم بھی ہوجاتا، مگر ہم ایک دوسرے کے دوست ہی ہیں۔ 

آج بہت دنوں بعد اسکی کالز دیکھیں تو فوراُ فون کرلیا کہ خیریت، عمومی طور پر وہ ایسے نہین کرتی، فون کرے گی، نہین جواب دیا تو جب مین نے فون کرلیا، ایسا ہی مین بھی کرتا ہوں کہ فون کرلیا جواب ملا تو ٹھیک نہین ملا تو جب اغلی فون کرلے۔ لہذا بار بار کی کالز نے میرے لئے ایک تجسس کھڑا کردیا۔ 

فوراُ کال کی تو اسکی رونے والی آواز سنائی دی، بچاری رو رہی تھی۔ وہ ایک گھر میں کام کرتی تھی، ایک بڑھیا کی دیکھ بھال کا۔ چار گھنٹے، پھر ایک گھر میں صبح کو، اور شام کو اپنے کرائے کے گھر مین آجاتی ہے۔ اسکی دو بیٹیاں ہیں، اور اسکا خیال تھا کہ وہ اس گرما کے موسم مین انکو اپنے پاس لے  آئے گی۔ 

بڑی ہی روہانسی اواز مین بتانے لگی کہ، وہ جہاں پر میں صبح کام کرتی ہوں وہ کہہ رہے ہین کہ تم ادھر ہی آکر رہو  اب مین ادھر جاکر رہوں تو، میری اپنی زندگی کیا ہوگی؟؟ بچے آئیں گے تو کس کے پاس رہین گے؟؟ اگر نہین جاتی تو کام ختم ہوجائے تو اب اور تلاش کرنا پڑے گا۔ کام چھوٹ گیا تو بچے کیسے آئین گے۔ اب تم بتاؤ؟؟ میں کیا کروں؟؟؟


مین اسے کیا بتاتا۔۔۔۔۔۔۔۔ مین ہی کیا سارے لوگ جو پردیس مین رہتے ہین انکی یہی پریشیانیاں ہین اوریہی ٹینشنز
یہی دکھڑے یہی المیئے۔ 

6 تبصرے:

  1. جس پردیسی سےملو اس کی پریشانی دیکهکر بندہ خود کی پریشانیاں بهول جائے.دور بیهٹے دیس میں رہنے والے کیا جانے ان کا دکه ، احساس، مجبوریاں

    جواب دیںحذف کریں
  2. جس پردیسی سےملو اس کی پریشانی دیکهکر بندہ خود کی پریشانیاں بهول جائے.دور بیهٹے دیس میں رہنے والے کیا جانے ان کا دکه ، احساس، مجبوریاں

    جواب دیںحذف کریں
  3. شالا کوئ پردیسی نہ تھیوے !
    تے ککھ جنہان تون بھارے ھو

    جواب دیںحذف کریں
  4. اللہ تعالیٰ ان پردیسیوں کو اپنے وطن میں روزی روٹی کا بندوبست کرے۔
    اسکے علاوہ کیا ہی کہا جا سکتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. پرانی کہاوت تھی کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں بیٹی کا تو اپنا گھر بھی اپنا نہیں ۔ ہاں لیکن اب زندگی نے یہ سبق ضرور دیا ہے کہ "ماں" دنیا کے کسی حصے میں ہو کتنی ہی "بری" کیوں نہ ہو لیکن مامتا کا جذبہ سانجھا ضرور ہوتا ہے، چاہے وہ خود بھی اس جذبے کو نہ پہچانتی ہو،اس سے انکار بھی کرتی ہو۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں