ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر, جولائی 16, 2012

بابے کا فرض

یاد آیا کہ ہماری گاڑی کی انشورنس میں روڈاسسٹنس بھی تو شامل ہے اسکے بھی تو پندرہ یورو سالانہ دئے ہوئے ہیں،  چلو انکو ٹرائی کرکے دیکھتے ہیں، اب انشورنس کے کاغذات نکالے اورڈرتے ڈرتے  انکو فون کیا کہ چھتر مارے گی کہ بابا تو نے جو پیسے دیئے ہیں وہ کسی بڑی مصیبت کےلئے ہیں، ٹائر کا مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل نہیں ہے،  اول تو موسیقی سنائی گئی ، پھر ایک خاتو ن کی مٹھاس بھری آواز ہمارے کانوں   میں رس گھولنے لگی، کہ آپ کی میں کیا خدمت کرسکتی ہوں، میں نے کہا بی بی آپ ہی تو خدمت کرسکتی ہو، اس نےگاڑی کی تفصیل لی،  موٹر وے کی لوکشن پوچھی، خرابی پوچھی تو میں نے بتایا کہ ذرا جی کڑا کر، مگر بھلے مانس نے کچھ نہ کہا ،صرف یہ کہ آدھ گھنٹے چالیس منٹ میں بس لفٹر آتا ہے اور آپ کو قریبی ورکشاپ پہنچایا جائے گا، گاڑی  کل ٹھیک ہوگی،  میں نے کہا بی بی کل پھر ادھر آنا بہت دشوار است، مطلب صاف لفڑا، آپ میری گاری اگلے سروس اسٹیشن تک پہنچادو، اور پھر میں جانوں اور میرا کام،  کہنے لگی گاڑی والے سے بات کرنا۔ اسلام علیکم اور یہ کہ فون کرنے کا شکریہ۔

ابھی انتظار شروع ہوا اور چالیسویں منٹ پر لفٹر ٹرک آن پہنچا، ڈرائیور ایک تھا  بزرگ  کوئی ساٹھ کے پیٹے میں ہوگا،   ساتھ میں کوئی نکا نہیں تھا، نہ ہی کوئی ہیلپر، اسے صورت حال بتائی تو کہنے لگا اگر ایسے کرنا ہے تو ٹائر تمھیں خود بدلنا پڑے گا،  میں نے اسے بتایا کہ میرا اس بارے کوئی تجربہ تو نہیں ہے مگر کوشش کروں گا، بابے نے نہایت بھلے مانسی سے گاڑی کو ٹرک پر چڑھایا اور ، ہم ڈیڑھ کلومیٹرکا فاصلہ عبور کرکے موٹر وے اسٹیشن پر پہنچے ، گاڑی اتاری گئی اور ٹائیر میں ہوا بھری گئی ، پھر ہم  نے بابے سے ہی پانہ مانگا اور کوشش کری نٹ کھولنے کی مگر وہ بھی ہمارا امتحان لینے کو تلے ہوئے تھے، یا پھر برسوں کے زنگ آلود ، کہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، بابے نے  مجھے ہٹایا اور ہوپ کہہ کر ایک دو تین چار نٹ کھول دیئے، ٹائیر نکال کر یہ پھینکا اور دوجا لگا، کوئی پانچ منٹ میں گاڑی فٹ چاروں پہیوں پر چلنے کو تیار،چلتی کا نام گاڑی کے مصداق پھر سے چلنے کو تیار۔

دونوں نے کالخ بھرے ہاتھ  ادھر واش روم کے خوشبودار صابن سے دھوئے اور پھر بابے نے ایک فارم نکالا ، اس پر  مجھے نام اور گاڑی  کا نمبر لکھ کر دستخط کرنے کو کہا۔ پھر کہنے لگا کہ تمھارے ذمہ کچھ بھی نہیں، اس سے پہلے کہ میں اسکا شکریہ ادا کرتا، وہ کہنے لگے:  " ہماری سروس استعمال کرنے کا بہت شکریہ"۔

بابے کا شکریہ اداکرنے کے الفاظ جو میں نےپہلے سے  سوچ رکھے تھے وہ منہ میں ہی رہے۔ البتہ اسے کہا : "بابا جی آپ کا شکریہ کہ آپ نے میری اتنی مدد کی"،   تو کہنے لگا :  "ہ جی کوئی گل نہیں یہ تو میرا فرض تھا"۔  

5 تبصرے:

  1. فرض؟؟ یہ کونسی زبان کا لفظ ہے اور کیا یہ پاکستان میں بھی پایا جاتا ہے؟ اس کو مزید واضح کیا جائے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہاں ہانگ کانگ میں بھی تقریباً روزانہ ہی ایسے بابے ملتے ہیں جو اپنے کام کو فرض سمجھ کرتے ہیں۔ پھر میں اپنے بارے میں سوچتا ہوں میں اللہ کا فرض پورا نہیں کرتا اس کے بندوں کی تو بہت دور کی بات ہے۔ پھر میں خوش ہوجاتا ہوں اور مطمئن بھی کیونکہ مجھے اپنی لاچارگی اور تباہی کی وجہ معلوم ہوجاتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. پچھلے ساڑھے چار سال کی بات تو میں نہیں کرتا ۔ اس سے پہلے کے واقعات ہیں ۔ میں اپنی کار میں اسلام آباد میں جا رہا تھا کہ اچانک انجن بند ہو گیا ۔ ایک اسلام آباد ٹریفک پولیس کی کار اسی وقت آ کھڑی ہوئی ۔ اس میں سے ایک افسر نکلا اور بولا "السلام علیکم ۔ ذرا بونٹ کھولئے"۔ میں نے کھول کر دیکھنے کی کوشش کی تو بولا "آپ ہاتھ گندھے نہ کریں ۔ میں دیکھتا ہوں "۔ ایک تار اتری ہوئی تھی لگا دی (ایک دن قبل سروس کرائی تھی ۔ یہ اس کی مہربانی تھی)۔ بولا "آپ کار چلائیں میں ایک دو کلو میٹر آپ کے ساتھ چلوں گا" ۔
    دوسرا واقعہ بھی اسلام آباد کا ہے ۔ اچانک ٹائر فلیٹ ہو گیا ۔ میں جیک اور پانا نکال رہا تھا تو ایک شخص بھاگتا ہوا آن پہنچا اور کہنے لگا "آپ چھوڑ دیں ۔ میں پہیہ بدل دوں گا"۔ اور پہیہ بدل دیا ۔ میں نے شکریہ ادا کیا تو بولا "جناب یہ میرا فرض تھا ۔ میں اسلام آباد ٹریفک پولیس میں ہوں اور اسی کام کی تنخواہ لیتا ہوں ۔ گھر جا کر 1915 پر ٹیلیفون کر کے بتا دیجئے گا کہ میں نے آپ کی خدمت
    کی"۔
    تیسرا واقعہ ۔ اسلام آباد ہی میں ٹائر فلیٹ ہوا ۔ میں کار سے اُترا ہی تھا کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ جوان جو موٹر سائکل پر جا رہا تھا ۔ کندھے پر لیپ ٹاپ ڈالا ہوا ۔ رک گیا اور بولا "انکل ۔ آپ چھوڑ دیجئے ۔ میں کرتا ہوں یہ کام ۔ اور کار میں سے جیک اور پانا نکال کر پہیہ بدل دیا
    یوں کہہ لیجئے کہ اللہ نے میری مدد کی یا پھر یہ کہ اس قوم مین ابھی جان ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. اُپ کا یہ تجربہ اور واقعہ سُن کر حقیقتا گوروں کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ بحر حال افتخار اجمل بھوپال صاحب نے موٹر وے پولیس کے جو تین تجربات بتائیں ہے ہو پڑہ کر دِل کو بہت جی
    چاہتا ہےبحرحال
    بحر حال اس واقعے سے اُپ کو نصیحت پکٹرنی چاہئے اور اپنی موٹر کار کو سفر سے پہلے اچھی طرح چیک کرنے کی عادت مستقلا اپنانی چاہئے

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں