مسجد سے جوتے چرانا ایک ایسا فعل ہے کہ سب اسے برا جانتے ہیں مگر ہورہا ہے۔ اب تو خیرسے پنکھے اور ٹونٹیاں بھی اترانا شروع ہوگئی ہیں ۔ چرسی پارٹی کا کام ہے۔ جب ہم نئے نئے کالج میں داخل ہوئے تو گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک دوست کہنے لگے کہ میاں رات واعظ ہے سننے چلیں، گے ساتھ والے گاؤں میں، گھروالوں کو بتلایا تو بہت خوش ہوئےکہ میاں جوانی میں نیک کام، اللہ سب کو ایسی سعادت مند اولاد دے۔ واعظ سنی، بڑا مزاہ آیا، مولوی صاحب جوان اور قد کاٹھ کے بندے تھے، بہت خوب بولے۔ واپسی پر یہی باتاں ہورہی تھیں کہ شاہ جی کہتے ہیں یار یہ مولوی بہت شہدا بندہ ہے۔ ہیں؟ کیوں شاہ جی کیاہوا؟ بھئی دیکھو اتنے قد کاٹھ کا بندہ اور چھوٹا سا پاؤں ہے اسکا۔ مگر شاہ جی آپ کو کیا مطلب اسکے پاؤں سے۔ فرمانےلگے دیکھو اس موئے کی جوتی ہی میرے پاؤں میں نہیں آرہی۔ ہاہاہا میرا جوتا شاہ جی سے بھی ایک سائز بڑا ہوتا ہے۔
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ, جولائی 25, 2008
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
اچھی تحریر ہے اور سبق آموز بھی۔
جواب دیںحذف کریں